[New post] آئی ایم ایف معاہدے کے بعد معیشت کو درپیش چیلنجز
KHAWAJA UMER FAROOQ posted: " اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی اشد ضروری ہے تاکہ ڈالر آنے کے وہ دروازے کھل سکیں جو معاہدے کے اب تک نہ ہونے کی وجہ سے بند ہیں جس میں مالیاتی اداروں کے علاوہ دوست ممالک کی امداد بھی ش" Pakistan Insider
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی اشد ضروری ہے تاکہ ڈالر آنے کے وہ دروازے کھل سکیں جو معاہدے کے اب تک نہ ہونے کی وجہ سے بند ہیں جس میں مالیاتی اداروں کے علاوہ دوست ممالک کی امداد بھی شامل ہے جس میں سے چین نے 1.5 ارب ڈالر کے ڈپازٹس رول اوور کر دیئے ہیں لیکن پروگرام بحالی سے قبل آئی ایم ایف ان تمام ممالک سے گارنٹی پر بضد ہے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے یہ شرط بھی رکھی ہے کہ آئی ایم ایف سے لی گئی رقم سے چین کے قرضوں کی ادائیگی نہ کی جائے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں تاخیر ہو رہی ہے۔ میں آئی ایم ایف پر کئی کالم لکھ چکا ہوں لیکن آج کے کالم میں معاہدے کے بعد آئی ایم ایف کی سخت شرائط سے ملکی معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات شیئر کرنا چاہوں گا۔ آئی ایم ایف کا 3 سالہ پروگرام جو 2019ء میں سائن کیا گیا تھا، ایک سال کی توسیع کے بعد جون 2023ء میں ختم ہو رہا ہے جبکہ آئی ایم ایف کے موجودہ پروگرام کی بحالی اپریل تک متوقع ہے لہٰذا ملکی معیشت سنبھالنے کیلئے ہمیں فوراً آئی ایم ایف کے 24 ویں پروگرام کی طرف جانا ہو گا لیکن افسوس آئی ایم ایف کے 23 پروگراموں کے باوجود ہم اہم شعبوں میں اصلاحات نہ لانے کے باعث معیشت میں بہتری نہ لاسکے اور نتیجتاً ملکی معیشت بگڑتی گئی۔
حکومتوں کے غیر ذمہ دارانہ اخراجات سے مالی خسارہ، قرضوں اور سود کی ادائیگیوں میں اضافہ ہوتا گیا، زراعت اور مینوفیکچرنگ شعبوں کو نظر انداز کر کے سروس سیکٹر کو فروغ دیا گیا جس سے ایکسپورٹ کے ذریعے گروتھ حاصل کرنے کے بجائے امپورٹ پر انحصار کیا گیا جس سے ناقابل برداشت تجارتی خسارے نے بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر کو کم ترین سطح تک پہنچا دیا اور روپیہ شدید دبائو کے باعث انٹربینک میں 285 روپے اور اوپن مارکیٹ میں 290 روپے پر پہنچ گیا، روپے کی قدر میں کمی سے ملکی خزانے کو بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں میں 5200 ارب روپے اضافی ادا کرنا ہوں گے جس کیلئے آئی ایم ایف نے منی بجٹ اور دیگر اقدامات کے ذریعے اضافی ٹیکس لگائے ہیں جو ملک میں مہنگائی کا سبب ہیں، ہم آئی ایم ایف کے زرمبادلہ ذخائر بڑھانے کے مطالبے کو دوست ممالک سے سافٹ ڈپازٹ اور پرانے ڈپازٹس کو رول اوور کر کے پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے نئے قرضے لے رہے ہیں جس سے سود کی ادائیگی ناقابل برداشت حد تک بڑھ گئی ہے جبکہ ہم نے ایکسپورٹ، ترسیلات زر اور بیرونی سرمایہ کاری کے حقیقی ذرائع سے اپنے زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ نہیں کیا، آج بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر 562 ارب ڈالر جبکہ اسٹیٹ بینک پاکستان کے صرف 4.3 ارب ڈالر ہیں۔
ملک میں چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتیں SMEs نہ لگنے اور ڈالر کی کمی کی وجہ سے امپورٹ LC پر پابندی کے باعث ٹیکسٹائل اور دیگر صنعتوں کی پیداواری صلاحیتوں میں کمی کے باعث ملک میں بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا ہے، آئی ایم ایف کے مطالبے پر ملکی GDP گروتھ کو کم کر کے 2 فیصد تک کر دیا گیا ہے جبکہ افراط زر یعنی مہنگائی گزشتہ 50 سال میں بڑھ کر 42 فیصد تک پہنچ گئی ہے جس سے غریب کے علاوہ متوسط طبقے کا گزارہ بھی مشکل ہو گیا ہے۔ ان حالات میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے موجودہ معاشی بحران میں آئی ایم ایف کے رویے کو غیر منصفانہ کہا ہے جبکہ آئی ایم ایف نے ٹیکس اصلاحات پر عملدرآمد کو پروگرام کی بحالی سے منسلک کر دیا ہے جو پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین اعتماد میں کمی کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ 3 سے 4 سال میں پاکستان کی معیشت خراب سے خراب تر ہوتی گئی اور مستقبل قریب میں ملکی معیشت میں کوئی فوری بہتری کی امید نہیں۔ پیداواری اور مالی لاگت میں اضافے سے ٹیکسٹائل اور دیگر مصنوعات کی ایکسپورٹس میں کمی، انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں بڑے فرق کی وجہ سے ترسیلات زر میں کمی، ملک میں سیاسی عدم استحکام اور امن و امان کی غیر مطمئن صورتحال کے باعث بیرونی سرمایہ کاری میں منفی رجحان واضح ہے، بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے باعث آنے والے وقت میں زرمبادلہ کے ذخائر میں خاطر خواہ اضافہ مشکل ہے جبکہ آئی ایم ایف نے جون 2023 تک 10 ارب ڈالر کا ہدف دیا ہے۔
آئی ایم ایف پروگرام نے ملکی معاشی گروتھ کو سست کرنے کیلئے جو اقدامات کیے ہیں، اس سے ہماری معاشی گروتھ بہت کمزور ہو گئی ہے جبکہ ہمیں نئی ملازمتوں کے مواقع اور ایکسپورٹ میں اضافے کیلئے تیز معاشی گروتھ کی ضرورت ہے۔ ممتاز معیشت دانوں کا خیال ہے کہ معیشت کی ترقی کیلئے پاکستان کو کم از کم 6 سے 7 فیصد معاشی گروتھ حاصل کرنا ہو گی جو ان حالات اور موجودہ آئی ایم ایف شرائط میں ممکن نہیں۔ پرتعیش اشیا پر 25 فیصد سیلز ٹیکس لگا کر ان اشیا کی امپورٹ کو روکنے کے عمل کو میں سراہتا ہوں لیکن ادویات، ٹیکسٹائل اور دیگر صنعتوں کے خام مال، پرزہ جات اور آلات کی امپورٹ کی حوصلہ شکنی کے ملکی معیشت اور ایکسپورٹ پر منفی اثرات دیکھنے میں آئے ہیں لہٰذا اسٹیٹ بینک اور FBR کو نہایت احتیاط کیساتھ امپورٹ پر پابندیاں لگانا ہوں گی۔ اس کیساتھ ساتھ اشرافیہ کی مراعات میں کمی بھی ایک خوش آئند قدم ہے، حکومت کوغیر پیداواری اخراجات میں اضافے کو کنٹرول کرنا ہو گا اور ملکی بقا کےعزم کیساتھ اخراجات میں کمی لانا ہو گی۔ اس موقع پر میں سیاسی جماعتوں سے بھی درخواست ہے کہ وہ سیاسی اختلافات بھلا کر ملکی بقا کیلئے میثاق معیشت پر متفق ہوں جو ملکی معیشت کی بحالی کیلئے مختصر، درمیانے اور طویل المیعاد ایک روڈ میپ دے سکے جس پر عمل کر کے ہم پاکستان کو دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن کر سکیں۔
No comments:
Post a Comment