Nature Impact Factor

Wednesday, January 4, 2023

[New post] سرکاری اداروں کی نجکاری کیوں ضروری ہے؟

Site logo image KHAWAJA UMER FAROOQ posted: " جب میں نے ترقی کے 6 اہم ستون سے متعلق لکھا تب لوگوں نے نشاندہی کی کہ میں نے سرکاری اداروں کی نجکاری سمیت اہم عناصر کا ذکر نہیں کیا۔ چونکہ زیادہ تر سرکاری ادارے نقصان میں ہیں اس لیے میں نے سوچا کہ شاید میں یہ موضوع مالیاتی اور شرحِ مبادلہ کی پالیسیوں کے س" Pakistan Insider

سرکاری اداروں کی نجکاری کیوں ضروری ہے؟

KHAWAJA UMER FAROOQ

Jan 5

جب میں نے ترقی کے 6 اہم ستون سے متعلق لکھا تب لوگوں نے نشاندہی کی کہ میں نے سرکاری اداروں کی نجکاری سمیت اہم عناصر کا ذکر نہیں کیا۔ چونکہ زیادہ تر سرکاری ادارے نقصان میں ہیں اس لیے میں نے سوچا کہ شاید میں یہ موضوع مالیاتی اور شرحِ مبادلہ کی پالیسیوں کے ستون میں کور کر چکا ہوں۔ لیکن جب میں نے غور کیا تو یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ ترقی کے ایک الگ ستون کی حیثیت سے مجھے نجکاری کو شامل کرنا چاہیے۔ نجکاری کی وضاحت کرنے سے پہلے یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ آخر ہمارے ملک میں موجود جیسی نااہل حکومت کو عوام میں اشیا اور خدمات کی فراہمی میں سرگرم ہونا چاہیے۔ مارکیٹس زیادہ تر اشیا اور خدمات بہتر انداز میں فراہم کرتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر مالی فائدے یا کارکردگی چمکانے کی غرض سے بھی ان عوامی شعبہ جات میں ہاتھ نہیں ڈالا جاتا۔ پیٹرول پمپس، ہوائی ادارے اور بینک اس کی مثالیں ہیں۔ جبکہ یہاں پاکستان میں پی ایس او، پی آئی اے اور نیشنل بینک ابھی بھی سرکاری ملکیت میں ہیں۔

اپنے مالی فائدے کے لیے بہت سی حکومتیں تعلیم اور صحت کی سہولیات بھی فراہم کرتی ہیں۔ میں اس حوالے سے پہلے بھی بحث کر چکا ہوں کہ پاکستان میں چونکہ خراب حکمرانی معمول بن چکی ہے اس لیے یہ کوئی انوکھی بات نہیں رہی۔ حکومت کو چاہیے کہ تعلیم اور صحت میں سبسڈی دے اور خود یہ سہولیات فراہم کرنے کے بجائے انشورنس یا واؤچرز جاری کرے تاکہ عوام نجی اداروں کی خدمات حاصل کر سکیں۔ جیسے سرکاری اسکول اوسط 3 ہزار روپے فی بچہ خرچ کرتا ہے جبکہ بہتر معیار کی تعلیم فراہم کرنے والے کم قیمت نجی اسکول صرف ایک ہزار فی بچہ فیس لیتا ہے۔ کچھ ایسی خدمات بھی ہیں جو مارکیٹ مہیا کرنے میں ناکام رہتا ہے کیونکہ ممکنہ سپلائرز ان عناصر کو خارج نہیں کر سکتے جو عوام کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور اس سے ریاست کی آمدنی بھی نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر امن و امان، اسٹریٹ لائٹس یا سانس لینے کے لیے بہتر ہوا، اگر لوگ اس کی قیمت ادا نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ انہیں اس بنیادی سہولیات سے محروم کر دیا جائے۔

اس حوالے سے حکومت کو ہی اقدامات کرنے ہوتے ہیں۔ پھر چاہے وہ عوام کی براہِ راست خدمات ہوں (مثال کے طور پر پولیس، یا پھر سانس لینے کے لیے بہتر ہوا کی فراہمی پھر چاہے وہ اصولوں اور جرمانوں کے تحت ہی کیوں نہ ہو) یا پھر سرکار نجی اداروں کو اسٹریٹ لائٹس لگانے یا اس کی مرمت کا ٹھیکہ دے۔ چونکہ ہماری حکومت اتنی باصلاحیت نہیں ہے اس لیے انہیں اس معاملے میں نجی اداروں کی مدد لینی چاہیے۔ لیکن کچھ عوامی خدمات صرف حکومت ہی مہیا کر سکتی ہے جس میں دفاع، پولیس، عدالتیں وغیرہ شامل ہیں۔ نجی اداروں کی جانب سے فراہم کی جانے والی بعض خدمات ایسی بھی ہیں جس میں پہلے سے سرگرم بڑی فرموں کا مقابلہ نئی فرم نہیں کر پاتیں کیونکہ بڑی فرموں کو نئے صارفین کی لاگت بہت کم پڑتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کراچی الیکٹرک (کے ای) جیسے بڑے ادارے کو نئے صارف کو سسٹم میں شامل کرنے کے لیے صرف ایک کھمبے سے تار کھینچ کے صارف کے گھر تک پہنچانے کی لاگت آئے گی جبکہ بجلی کے نئے تقسیم کار کو پیداواری سائٹ سے صارف کے گھر تک کنکشن لائن بچھانی پڑے گی جو شاید ہزاروں میل دُور ہو اور اتنے طویل کنکشن لائن پر بھاری لاگت الگ آئے گی۔

چونکہ چھوٹی اور نئی فرمیں مقابلہ نہیں کر پاتی اس لیے بڑی فرموں کی صارفین پر اجارہ داری قائم ہو جاتی ہے۔ یہ وہ صورتحال ہوتی ہے جب حکومت کو آگے آنا ہوتا ہے۔ حکومت کو ان ریگولیٹری اداروں کو صارفین سے بجلی، گیس اور پانی کی زیادہ قیمتیں لینے سے روکنا چاہیے۔ لیکن پھر بھی یہ جواز نہیں بنتا کہ حکومت یہ خدمات خود فراہم کرے۔ 1970 کی دہائی میں جب اشتراکیت کو کچھ خاص پسند نہیں کیا جاتا تھا، انگریزوں کی چند پالیسیاں ایسی تھیں جنہیں بعد میں چند لوگوں نے 'پیداواری اشتراکیت' کا نام دیا۔ ان پالیسیوں میں اشیا کی پیداوار اور خدمات فراہم کرنے والوں (مثلاً سرکاری ملازمین) کو تو فائدہ ہوتا تھا لیکن یہ پالیسیاں ان کے لیے مفید نہیں تھیں جو انہیں استعمال کر رہے تھے (یعنیٰ عام شہری)۔ آج پاکستان اسی پیداواری اشتراکیت کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ پی آئی اے کے علاوہ پاکستان میں 4 نجی ایئر لائنز اور ہیں جو نئے طیارے اور پی آئی اے کے مقابلے میں بہتر کرائے اور سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔

ان دونوں کے بیچ فرق یہ ہے کہ پی آئی اے کی وجہ سے ہمیں سالانہ اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے جبکہ دوسری جانب نجی ایئر لائنز ہمیں پیسے کما کر بھی دیتی ہیں اور ٹیکس بھی ادا کرتی ہیں۔ تو پی آئی اے صرف 10 ہزار ملازمین کے مفاد کے لیے چلائی جا رہی ہے جبکہ 22 کروڑ پاکستانیوں کے مفاد کو بالکل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ پی آئی اے کے کُل نقصانات اور سبسڈی کا حجم 635 ارب روپے ہے جبکہ اگر یہی مالیت ہمارے زرِمبادلہ کے ذخائر کی ہوتی تو شاید ہمارے بہت سے مسائل حل ہو سکتے تھے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ جب بھی حکومت اس ادارے کو بیچنے کے لیے کھڑی ہوتی ہے تو پی آئی اے انتظامیہ اور ملازمین، ایوی ایشن کی وزارت اور حزبِ اختلاف مل کر اس کی فروخت روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم سالانہ پی آئی اے کے نقصانات کی صورت میں جو رقم گنواتے ہیں، اس رقم سے مختلف شہروں میں ہر سال نیا آغا خان ہسپتال بنایا جاسکتا ہے۔

پی آئی اے کی طرح بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں (ڈسکو) بھی بدتر حالت میں ہیں۔ یہ کمپنیاں ملک کے 17 فیصد صارفین سے بجلی کے بل وصول کرنے میں ناکام ہیں۔ مزید یہ کہ وہ بجلی کی تقسیم کے دوران بھی 17 فیصد بجلی ضائع کرتے ہیں۔ تو مجموعی طور پر ہم 34 فیصد بجلی تو ضائع کر دیتے ہیں یا پھر وہ چوری ہو جاتی ہے۔ یوں وہ صارفین جو بل ادا کرتے ہیں، انہیں مہنگے نرخوں پر بجلی مہیا کی جاتی ہے۔ سوئی گیس کی دونوں کمپنیاں بھی کچھ بہتر حالت میں نہیں۔ ان دونوں کو چھوٹی کمپنیوں میں تقسیم کرنے کے بعد ان کی بھی نجکاری کر دینی چاہیے۔ ان دونوں کمپنیوں سے تقریباً 400 ایم سی سی ایف ڈی کی گیس مختلف وجوہات کی بنا پر ضائع ہوئی (اسے یو ایف جی کہتے ہیں) اور وہ یہ جانتے بھی نہیں کہ اتنی گیس کا آخر ہوا کیا۔ کوئی نہیں جانتا کیا یہ گیس لیک ہوگئی یا پھر چوری ہو گئی۔

بلوچستان کو فراہم کی جانے والی آدھی سے زیادہ گیس ضائع ہو جاتی ہے۔ ان دونوں کمپنیوں سے جو گیس ضائع ہوتی ہے اس کی لاگت 20 کروڑ ڈالرز فی مہینہ ہے۔ گزشتہ کئی سالوں میں تقسیم، بلوں کی وصولی یا یو ایف جی میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔ انہیں بہتر کرنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ ان اداروں کی نجکاری کر دی جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب مالک کا اپنا پیسہ داؤ پر لگا ہو گا تب خود بخود صورتحال میں بہتری آئے گی۔ اور یقینی طور پر صرف تقسیم کی ذمہ دار کمپنیاں ہی نہیں بلکہ ہمیں پیداواری کمپنیوں اور دیگر تمام سرکاری اداروں کی نجکاری کرنا ہو گی۔ اگر ہم ان سرکاری اداروں کی نجکاری کریں گے تو ہمیں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہمارے ریگولیٹرز کا عالمی سطح پر کیا کردار ہو گا۔ قوانین، اہلیت اور دائرہ کار کی وجہ سے ہمارے ریگولیٹری ادارے صارفین کے مفادات کو مکمل طور پر محفوظ بنانے کے لیے کافی کمزور اور بیوروکریٹک ہیں۔

یہ ریوگولیٹری ادارے حکومتی نظام کا اہم حصہ ہوتے ہیں اسی لیے ہمیں ان اداروں کو مضبوط اور بہتر بنانا ہو گا۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری حکومت عدالت، تھانوں اور ایئر ٹریفک کو کنٹرول کرے۔ ہم نہیں چاہتے کہ حکومت پیٹرول پمپس، تیل کے کنویں پورٹ، ہوائی اڈے یا ریلوے وغیرہ کے انتظامات سنبھالے۔ متعلقہ شعبہ جات میں ہمارے سرکاری ادارے سالانہ اربوں روپے کا نقصان تو کرتے ہی ہیں ساتھ اس سے کاروباری مواقعوں میں بھی کمی آتی ہے۔ سرکاری اداروں کی نجکاری کر کے نہ صرف ہم حکومت کا اثر و رسوخ ان اداروں پر سے ختم کر سکتے ہیں بلکہ یوں ہماری ٹیکس آمدنی، روزگار اور اقتصادی ترقی میں بھی اضافہ ہو گا۔

مفتاح اسمٰعیل

یہ مضمون 30 دسمبر کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

بشکریہ ڈان نیوز

Comment
Like
Tip icon image You can also reply to this email to leave a comment.

Unsubscribe to no longer receive posts from Pakistan Insider.
Change your email settings at manage subscriptions.

Trouble clicking? Copy and paste this URL into your browser:
https://pakistaninsiders.wordpress.com/2023/01/05/%d8%b3%d8%b1%da%a9%d8%a7%d8%b1%db%8c-%d8%a7%d8%af%d8%a7%d8%b1%d9%88%da%ba-%da%a9%db%8c-%d9%86%d8%ac%da%a9%d8%a7%d8%b1%db%8c-%da%a9%db%8c%d9%88%da%ba-%d8%b6%d8%b1%d9%88%d8%b1%db%8c-%db%81%db%92%d8%9f/

Powered by WordPress.com
Download on the App Store Get it on Google Play
at January 04, 2023
Email ThisBlogThis!Share to XShare to FacebookShare to Pinterest

No comments:

Post a Comment

Newer Post Older Post Home
Subscribe to: Post Comments (Atom)

[New post] Woods Hardware Building – Cincinnati, Ohio

...

  • [New post] Mornings are always good in The Gallery at Redlands
    davidtripp posted: " Preparing to return to work on the "mules" watercolor I managed to rise early enough ...
  • [New post] Upgrade Complete
    eranboudjnah posted: " This is a blog about constantly improving. It's about getting better, at least in some way, ever...
  • [New post] Jungle Waterfall
    Markosun posted: " Tumpak Sewu, also known as Coban Sewu, is a tiered waterfall that is located between the Pronojiwo D...

Search This Blog

  • Home

About Me

Natureimpactfactor
View my complete profile

Report Abuse

Labels

  • 【ANDROID STUDIO】Await and Async
  • 【FLUTTER ANDROID STUDIO and IOS】animated opacity
  • 【GAMEMAKER】Parallax
  • 【PYTHON】Mean Estimated Accuracy Logistic Regression
  • 【Visual Studio Visual Csharp】Mutex
  • 【Visual Studio Visual VB net】Map Network Drive Wizard

Blog Archive

  • August 2023 (660)
  • July 2023 (866)
  • June 2023 (796)
  • May 2023 (775)
  • April 2023 (809)
  • March 2023 (905)
  • February 2023 (834)
  • January 2023 (905)
  • December 2022 (865)
  • November 2022 (878)
  • October 2022 (940)
  • September 2022 (786)
  • August 2022 (745)
  • July 2022 (823)
  • June 2022 (903)
  • May 2022 (1064)
  • April 2022 (967)
  • March 2022 (786)
  • February 2022 (638)
  • January 2022 (726)
  • December 2021 (1190)
  • November 2021 (3136)
  • October 2021 (3242)
  • September 2021 (3141)
  • August 2021 (3246)
  • July 2021 (3249)
  • June 2021 (3143)
  • May 2021 (301)
Powered by Blogger.